برسرزمین ریلیف کیسے ممکن ہے؟

وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ وہ بجلی کے بلوں کا حجم ہو یا مہنگائی میں اضافہ بخوبی آگاہ ہیں ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال سے متعلق اجلاس میں وزیراعظم نے ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں اور بے ضابطگیوں  کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا حکم بھی دیا‘ وطن عزیز کی معاشی مشکلات سے صرف نظر ممکن نہیں ان مشکلات کا ذکر اعدادوشمار کے ساتھ سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر سخت ترین بیانات کی صورت میں کرتے ہیں‘ ایسے میں حکومتی سطح پر اگر اصلاح احوال کی بات ہوتی ہے تو اس میں بھی پیچیدہ اعدادوشمار کیساتھ یہ بتادیا جاتا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں اور تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آرہی ہے اور اس طرح کے کئی حسابات پیش ہوتے ہیں یہ سب درست اور ذمہ دار اداروں کی رپورٹس پر تشکیل پانے والے اعدادوشمار ہیں دوسری جانب برسرزمین حقیقت عوام کو درپیش مشکلات ہیں جن کا گراف وقت کیساتھ مسلسل بڑھتا چلا جارہاہے گرانی کمر توڑ صورت اختیار کئے ہوئے ہے مرکز اور صوبوں کی سطح پر اصلاح احوال کیلئے متعدد اعلانات ریکارڈ پر موجود ہیں اس سب کے باوجود برسرزمین تلخ حقیقت یہ ہے کہ کمر توڑ مہنگائی اور بھاری یوٹیلٹی بلوں نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وزیراعظم کا یہ کہنا کہ وہ اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں‘ قابل اطمینان اور اس ضمن میں ادراک کا عکاس ضرور ہے تاہم عوام کے لئے یہ سب اس وقت ثمر آور ہوگا جب انہیں برسرزمین ریلیف ملے اس مقصد کے لئے ضرورت ایک موثر حکمت عملی ہے کہ جس میں فوری درمیانی اور طویل مدت کی منصوبہ بندی کی جائے اس میں ضرورت وسیع مشاورت کی بھی ہے تو اس کو لیس تکنیکی مہارت کے ساتھ بھی کرنا ہوگا۔
پشاور کے بارے میں صرف اعلانات
یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنیوالی حکومتوں کے اعلانات میں پشاور کی تعمیر و ترقی کیساتھ عظمت رفتہ کی بحالی مشترک ہے بعض ادوار میں بات اعلانات سے آگے جا کر دوچار اجلاسوں اور ملٹی میڈیا پر بریفنگ تک بھی گئی ہے‘ انگلیوں پر گنے جانیوالے چند اقدامات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں ان اقدامات یا باالفاظ دیگر منصوبوں کی ضرورت تھی یا نہیں‘یہ اپنی جگہ جواب طلب سوال ہے‘ دوسری جانب برسرزمین تلخ حقائق خود صورتحال کی وضاحت کر رہے ہیں‘ آبادی میں اضافہ‘ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی طویل میزبانی کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کے صدر مقام کا انفراسٹرکچر دب کر رہ گیا‘  اس سلسلے میں ناقص منصوبہ بندی اور فرائض سے غفلت کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔