خیبر پختونخوا حکومت نے گڈ گورننس کے لئے گائیڈ لائنز دینے کے ساتھ اب وزیراعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور نے صوبائی وزراءکو ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لئے دورے کرنے کا کہا ہے۔ پشاور میں گزشتہ روز ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ وزراءہفتے میں ایک روز اضلاع کا دورہ کریں۔ اجلاس کے دیگر فیصلوں میں صوبائی کابینہ کے اراکین کے لئے ہاﺅس سبسڈی ماہانہ 2 لاکھ روپے کر دی گئی جبکہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے کے اضافے سے کابینہ اراکین اب بجلی اور دیگر یوٹیلٹی بل خود ادا کریں گے۔ اجلاس میں چیئرمین لوکل گورنمنٹ کا اعزازیہ 80 ہزار روپے مقرر کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ صوبے کے مالی وسائل کے حوالے سے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں خیبر پختونخوا کے لئے 10 سالہ گرانٹ اور شیئر کے دوبارہ تعین کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ جہاں تک ترقیاتی منصوبوں کے ہفتہ وار جائزے سے متعلق ہدایات کا تعلق ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق اسے قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ کسی بھی ریاست میں حکومت کی جانب سے قومی تعمیر کے منصوبے ہوں یا خدمات کی فراہمی کا پورا کام عوام کے لئے یہ سب اسی صورت ثمرآور ثابت ہو سکتا ہے جب پراجیکٹس طے شدہ تخمینہ جات اور دیئے گئے ٹائم فریم کے اندر مکمل ہوں‘ اس طرح خدمات کے اداروں میں اربوں روپے کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود اگر عوام کو سروسز نہ مل پائیں تو یہ سب قومی فنڈز کا ضیاع ہونے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں ترقیاتی منصوبوں کے ہفتہ وار جائزہ کے ساتھ ذمہ دار حکام کو خدمات کی فراہمی کے اداروں میں بھی خود جا کر صورتحال دیکھنے کی ہدایت بھی ناگزیر ہے۔ حکومت مرکز میں ہو یا پھر کسی بھی صوبے میں اس کے اعلانات اور اقدامات عوام کے لئے اسی صورت ثمرآور ثابت ہوتے ہیں جب انہیں برسرزمین ریلیف کا احساس ہو بصورت دیگر عام شہری کے لئے سب کچھ بے معنی اور زبانی کلامی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی سطح پر اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے ان رپورٹس پر انحصار کیا جاتا ہے جن میں اعداد و شمار کے ساتھ سروسز کی فراہمی اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کا ذکر ہوتا ہے۔ ان اعداد و شمار میں ان لوگوں کی تعداد نہیں ہوتی جو خدمات کے معیار سے مطمئن نہیں ہوتے اس سقم کو دور کرنے کے لئے وزیراعلیٰ کو ذمہ دار حکام سے آن سپاٹ جا کر عوامی مشکلات سے آگہی کے لئے ہدایات جاری کرنا ہوں گی۔