وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ چند روز میں ملک کیلئے معاشی پلان اور بجلی کی قیمت میں کمی کی خوشخبری سنانے کا کہا ہے‘ وفاقی دارالحکومت میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنا احتساب ضرور کرنا چاہئے‘ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا زندگی مانگ کر گزارنی ہے یا اس خواب کی طرح کہ جس کیلئے پاکستان وجود میں آیا‘ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں سب اچھا نہیں ہے تو سب برا بھی نہیں ہے‘ سخت مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے باعث عوام کی پریشانی کا ذکر بھی وزیراعظم کے خطاب کا حصہ تھا۔ وطن عزیز میں بدھ کے روز 77 اں یوم آزادی ایسے وقت میں منایا گیا جب ملک کو متعدد سیکٹرز میں سخت مشکلات کا سامنا ہے‘ ان میں معیشت کے شعبے میں درپیش چیلنجوں کا اثر ملک کی تعمیر و ترقی اور خدمات کی فراہمی پر تو مرتب ہوتا ہی ہے اس سیکٹر کی مشکلات سے عام شہری کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے‘ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے کی بحث چھڑ جائے تو قومی قیادت ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتی ہے اور اس حوالے سے ہر کوئی اپنے دلائل بھی پیش کرتا ہے‘ دوسری جانب اس ساری صورتحال میں متاثر ہونے والا ملک کا عام شہری اس سب کا ذمہ دار نہیں اس کے باوجود کوئی بھی حکومت قرضہ اٹھائے تو اس قرضے کیساتھ آنے والی شرائط کا سارا لوڈ اس عام شہری پر ہی ڈال دیا جاتا ہے‘ آج ملک کا ہر شہری مہنگائی کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے رہی سہی کسر یوٹیلٹی بلز نکال دیتے ہیں‘ بجلی کے کیس میں سفید پوش گھرانوں کیلئے بنایا پورا گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے گرانی اور مہنگی بجلی کے حوالے سے اعلانات اور اقدامات قابل اطمینان اور اس حوالے سے احساس و ادراک کے عکاس تو ضرور ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ طویل المدت پلاننگ کیساتھ اس وقت عوام کو فوری نوعیت کے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ جن کیساتھ غریب عوام کو ریلیف مل سکے‘ حکومت کے 5 سالہ معاشی پلان کیساتھ اگر بجلی بلوں میں فوری ریلیف مل جاتا ہے تو قابل اطمینان سہی ضرورت اس کیساتھ فوری نوعیت کے ایسے اقدامات کی ہے کہ جن میں عوام کو سہولت کا احساس ہو‘ اس میں سرفہرست مارکیٹ کنٹرول کیلئے مو¿ثر انتظام ہے کہ جس میں مصنوعی گرانی‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ ہو‘ اس کیلئے مرکز اور صوبوں کی سطح پر کسی اضافی بجٹ کی ضرورت نہیں صرف سٹیک ہولڈر دفاتر کے وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال اصلاح احوال کیلئے ثمرآور نتائج دے سکتا ہے‘ اس حوالے سے ماضی میں مو¿ثر رہنے والے سسٹم کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں مزید بہتری لائی جا سکے۔ اس کیساتھ ضرورت خدمات کے تمام اداروں میں کڑی نگرانی کے ایسے نظام کی ہے کہ جس میں سب اچھا ہے کی رپورٹس پر انحصار کی بجائے ذمہ دار حکام خود موقع پر جا کر صورتحال کا جائزہ لیں۔