وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی حکومت کے دفاتر میں کاغذ کا استعمال ختم کرنے اور تمام دفتری معاملات کمپیوٹر پر لانے کا حکم دیا ہے اس مقصد کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کو ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں وزیراعظم پیپر لیس نظام کے حوالے سے کوئی تاخیر برداشت نہ کرنے کا بھی کہتے ہیں شہبازشریف کاکہنا ہے کہ وہ ایک ماہ کے بعد ای آفس کے علاوہ کوئی فائل نہیں دیکھیں گے‘ وزیراعظم نظام کی شفافیت میں سست روی اور غفلت کسی صورت برداشت نہ کرنے کا بھی کہتے ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وطن عزیز میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر دفتری کام کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی ضرورت ہے‘ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ملک میں فائل ورک کی سست روی کا خاتمہ ہو ‘جہاں ایک ہی کمرے میں ایک فائل ایک سے دوسری میز کاسفر طویل وقت میں طے کرتی ہے جہاں تک سوال شفافیت کا ہے تو اس میں دفتری نظام مینول ہو یا پھر ای آفس پر اصل ضرورت نگرانی کی جانچ پڑتال کے موثر نظام کی ہے جب تک کڑی نگرانی اور پوچھ گچھ کا انتظام نہ ہو شفافیت کیساتھ سروسز کی فراہمی بھی بہتر اور محفو ظ نہیں ہو پاتی‘ ضرورت اس ضمن میں مروج طریقہ کار کو ری وزٹ کرنے کی بھی ہے تاکہ کہیں کوئی سقم موجود ہو تو اسے دور کر دیا جائے‘ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے مراحل میں مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ریاست میں حکومتی سطح پر ہونے والے فیصلے‘ اعلانات اور اقدامات اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں جب ان پر عملدرآمد پوری طرح ہو اور عوام کو عملی طورپر ان کے نتیجے میں ریلیف کا احساس ہو ‘پیپر لیس دفاتر ہوں یا پھر کسی بھی سیکٹر میں اصلاحات ان کے بہترنتائج کیلئے ضروری یہ بھی ہے کہ مرکز اور صوبوں کے تمام متعلقہ سٹیک ہولڈر دفاتر کے درمیان باہمی رابطہ بھی یقینی ہو۔
قابل توجہ یہ صورتحال بھی ہے
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں ٹریفک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے مسئلے کی شدت میں وقت کیساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اصلاح احوال کیلئے اقدامات اگر اٹھائے بھی جائیں تو وہ مرکزی شارع اور چند دوسری سڑکوں تک محدود رہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹریفک سے جڑے مسائل کسی ایک دفتر کا درد سر نہیں اس میں مختلف سٹیک ہولڈر ادارے ہیں اس سارے مسئلے کی شدت میں دیگر عوامل کیساتھ تجاوزات بھی ہیں جن کے خاتمے کیلئے مستقل نوعیت کی پلاننگ ضروری ہے جس میں تاجروں کی نمائندگی بھی شامل ہو ایک گھنٹے کیلئے تجاوزات ختم ہونا اور دوبارہ وہی صورت اختیار کرنا مسئلے کا حل نہیں۔