وطن عزیز میں سیاسی مخالفت حد اعتدال سے باہر ہے عرصے سے جاری سیاسی کشمکش‘ تناؤ اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ گزشتہ چند روز سے ایک بار پھر شدت اختیار کئے ہوئے ہے پورے منظرنامے میں کون صحیح اور کون غلط کی بحث میں پڑے بغیر ان تلخ زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جو قومی قیادت کی ترجیحات میں نمایاں ہونے ضروری ہیں اور جن کے حوالے سے صرف بیانات و چند اجلاسوں پر اکتفا کرنے کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا‘ اس وقت ملک کو اقتصادی شعبے میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں کا حجم کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا چلا جارہا ہے‘ یکے بعد دیگرے ہر برسراقتدار آنے والی حکومت اس چیلنج سے نمٹنے کی باتیں تو ضرور کرتی رہی تاہم قرضوں کا والیوم ساتھ ساتھ بڑھتا ہی رہا اور قرض دینے والوں کی شرائط کا سارا بوجھ غریب عوام پر شدید گرانی کی صورت میں مسلسل بڑھتا رہا‘آج غریب عوام کیلئے کمر توڑ مہنگائی کے ہاتھوں زندگی اجیرن ہو چکی ہے بیرونی قرضوں کے ساتھ گردشی اور دیگر قرضوں سے متعلق اعدادوشمار بھی تشویشناک ہیں‘قرضوں کے باعث ٹیکسوں اور پیداواری لاگت میں ہونے والے اضافے سے جو مہنگائی بڑھی ہے وہ اپنی جگہ‘ اس کے ساتھ مارکیٹ میں مصنوعی اور خود ساختہ گرانی نے صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے‘ملاوٹ انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرہ بنتی چلی جارہی ہے‘ اس مسئلے کا ایک حل مارکیٹ کنٹرول کا موثر نظام ہے جس کیلئے مرکز اور صوبوں کی حکومتوں کو حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی‘بنیادی سہولتوں کا فقدان اپنی جگہ ہے‘آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں‘ بلدیاتی نمائندے اپنے انتخاب سے آج تک فنڈز کی کمی جبکہ اختیارات اور سہولیات سے متعلق مسائل حل نہ ہونے کا کہہ رہے ہیں‘ میونسپل سروسز کی حالت معمولی بارش اور آندھی میں زیادہ واضح صورت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے تعلیم‘ علاج اور دیگر خدمات کے شعبوں میں ثمر آور نتائج یقینی بنانے کیلئے مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے‘توانائی بحران اپنی جگہ تشویشناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘کیا ہی بہتر ہو کہ قومی قیادت عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے مرکز اور صوبوں کی سطح پر موثر حکمت عملی کے تحت اقدامات یقینی بنائے۔