وفاقی حکومت نے رائٹ سائزنگ کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا ہے‘ اس حوالے سے مہیا ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق مزید وزارتوں کو ختم یا پھر دوسرے محکموں میں ضم کرنے کی سفارش کی گئی ہے حکومت ہزاروں اسامیوں کو ختم کرنے کے آپشن پر بھی غور کر رہی ہے جبکہ5وزارتوں کے درجنوں ادارے تحلیل یا پھر پرائیوٹائز کرنے کی تجاویز بھی ہیں‘ اس ضمن میں رائٹ سائزنگ کمیٹی کی سفارشات بھی تیار کرلی گئی ہیں‘ اس سب کیساتھ ادارہ جاتی اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے‘ وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ گڈ گورننس کیلئے ماہرین کی تعیناتی سے فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری آئے گی‘وہ ہر شعبے میں اصلاحات کے نفاذ کو وقت کی ضرورت بھی قرار دیتے ہیں‘ وزیراعظم ڈیجیٹلا ئزیشن اور خود کار نظام کو ترقی و خوشحالی کا ضامن بھی گردانتے ہیں‘اس سارے عمل میں ملازمین کا مفاد مدنظر رکھنا ضروری ہے‘ وطن عزیز کو اکانومی کے سیکٹر سمیت دیگر مختلف شعبوں میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ معیشت کے شعبے میں ابتر صورتحال کا اثر عوام پر بھی شدید مشکلات کی صورت نظرآرہا ہے‘ مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے جبکہ بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والے صارفین لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں‘ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی عوام کو دشواریوں کا سامنا ہے‘ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے‘کی بحث طویل اور لاحاصل ہے جس میں صرف ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہی دکھائی دے گی‘ درپیش ساری صورتحال میں دیگر تمام عوامل کے ساتھ بدانتظامی کے عنصر سے چشم پوشی کی گنجائش نہیں اس حقیقت سے انحراف بھی ممکن نہیں کہ کسی بھی ریاست میں حکومتی اقدامات اور وژن کے مطابق اصلاحات صرف اسی صورت ثمر آور ثابت ہوتی ہیں‘ جب ان پر عملدرآمد کی ذمہ دار سرکاری مشینری پوری طرح فعال ہو اور اسکے آپریشن کی ہر سطح پر کڑی نگرانی کا محفوظ انتظام بھی ہو‘ میرٹ اور شفافیت کے ساتھ دیئے جانے والے اہداف کو پانے کیلئے ٹائم فریم کا تعین بھی ضروری ہے‘ ضروری یہ بھی ہے کہ ذمہ دار حکام دفاتر میں بیٹھ کر صرف فائلوں میں لگی کارکردگی رپورٹس پر متعلقہ دفاتر کو خراج تحسین نہ پیش کرتے رہیں بلکہ خود موقع پر جا کر صورتحال ملاحظہ بھی کریں اور سٹیک ہولڈرز کی بات بھی خود سنیں اسکے ساتھ کارکردگی کے حوالے سے مانیٹرنگ کا محفوظ نظام بھی دیا جائے تاکہ لوگوں کو ریلیف کا احساس ہو۔